تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
ہے آیتوں کے لب پہ قصیدہ رسول کا
قرآن پڑھتا ہے چہرہ رسول کا
کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ والا صفات کے پہلوؤں کو بطور کامل تحریر کر سکے اور آپؐ کی مکمل خوبیوں و خصوصیات کی تصویر پیش کر سکے۔ تاجدار انبیاءؐ و خاتم النبیینؐ کے سلسلے میں جہاں تک پڑھ سکے، معلوم کرسکے، سمجھ سکے اور قابل تحریر ہوسکے وہ آپؐ کے حقیقی، باطنی اور معنوی وجود کی صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے، لیکن اتنی ہی معرفت رحمت العالمین مسلمانوں اور تمام بشر انسانیت کو شاہراہ پر گامزن کرکے انہیں انسانی سعادت اور عظمت کی بلندیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح یہ معرفت اسلامی اتحاد کے سائے میں انہیں اس عظیم مرکز پر جمع کر سکتی ہے۔
حبیب اللہ کی بعثت سے قبل انسانیت حکمرانوں کے ظلم و تشدد سے کراہ رہی تھی۔ اس مظلوم دنیا نے کیا کیا صعوبتیں و مظالم برداشت کیں اور ناگفتہ بہ کیسی کیسی روشیں اختیار کیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ دنیا کہ تمام مذاہب اپنی اصلی شکل و صورت کھو چکے تھے۔ یہودیت کچھ بے جان رسموں کا مجموعہ تھا جس میں زندگی کی کوئی ہیّت باقی نہ تھی۔ روم کے نصرانیوں کی بت پرستی اس کے خون میں گھل گئی تھی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات اسی مشرک کے ملبے تلے دبی، کچلی و بے بس محسوس کر رہی تھی۔
بعثتِ آقائے دو جہاں سے قبل عرب میں جاہلیت کی انتہا تھی۔ قرآن کریم نے اس کا الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے "یعنی تمام دنیا میں خشکی اور تری میں فساد اور خرابی پیدا ہوگئی تھی اور زمانہ کی حالت ایک مصلح کی ظاہر ہونے کی متقاضی تھی" (سورۃ الروم: 42)
عرب کے لوگ سخت مزاج اور وحش تھے۔ وہ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی زمین سنگلاخ تھی۔ وہ لوگ سقی القلب اور پتھر دل تھے۔ عدل و انصاف کا کوئی نام و نشان ہی نہ تھا۔ قبائل کے درمیان جنگ و جدل عام تھا۔ چھوٹی سی چھوٹی بات پر سالہا سال دشمنی اس قوم کا وطیرہ تھی اور کئی نسلوں تک ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کے خون کا پیسا رہتا تھا۔ عورتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ المختصر، پورا معاشرہ انانیت، انتقام اور ظلم و جور کے لپیٹ میں تھا۔
پیغمبر اسلام عظیم ہے۔ کمال خلاق، جمال ہستی، عظمت بشر، وہ عکس بھی، آئینہ بھی، خط بھی، نقط بھی، دائرہ بھی، نظارہ، نظر بھی، شرح احکام حق تعالٰی، شعور لایا، کتاب لایا، حشر تک کا نصاب لایا، وہ ہر زمانے کا راہبر بن کر آیا کیونکہ وہ علم، عمل اور تربیت کے لیے معلم بن کر آیا، وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے، وہی سلطان بحر و بر ہے، وہ ان مسلمانوں کے لیے درخشندہ منارہ جو کہتے ہیں ہمارے جیسا: جو تیغ زن سے لڑے نہتا، غالب آکر صلح کرے اور دشمنوں و مخالفوں کی نظر میں "الامین و الصادق" و معتبر ہے۔ لیکن ہم 73 فرقوں میں تقسیم ہوگئے:
جس کو نبی کی ذات سے وابستگی نہیں
اس کی قسم خدا کی کوئی زندگی نہیں
ہر ذہن منور ہو جائے ہر قلب فروزاں ہوجائے
میلاد کی شب آئ، عالم میں چراغاں ہوجائے
اللہ تبارک و تعالٰی اپنی کتاب میں ارشاد فرما رہا ہے: 'وَمَا اَرسَلنکَ اٍلا رحمت العالمین' تمام جن و انس کے لیے رحمت العالمینؐ کی حیات طیبہ نمونۂ عمل ہے۔ تاریک دنیا، علم و معرفت سے نابلد لیکن آپؐ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے بحث و مباحثے کیے، بہت سی سختیاں برداشت کیں، اقتصادی بائیکاٹ کا سامنا کیا، ایسے مخالف حالات میں بھی حیران و پریشان نہیں ہوئے بلکہ اپنی سچی بات اور موقف کا صبر و استقلال سے واضح کرتے رہے۔ خاتم الانبیاءؐ نے اپنی توہین کا سامنا کیا۔ اپنی جان کے لیے خطرات مول لیے تب لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دائرۂ اسلام میں داخل کر سکے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج کا ہندوستانی ماحول مسلمانوں کے لیے بہرحال سنگین ہے لیکن امت مسلمہ کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ آپؐ کی حیات طیبہ کو اپنا کر، مخالف ماحول کو اپنے حق میں کرنا ناممکن نہیں۔ بے شک، آپؐ کی سیرت پر چل کر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوا جاسکتا ہے۔
ہمارے آخری پیغمبر، حضرت محمد مصطفٰیؐ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ "اشرف المخلوقات کی بہترین تربیت" جیسا کہ رب العزت فرما رہاہے: "یعنی بےشک خدا وند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان کے لیے انہیں میں سے ایک رسولؐ کو مبعوث کیا تاکہ وہ انہیں آیات قرآنی سنائے اور ان کے نفوس کو پاک کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔
ان آیات سے یہ صاف عیاں ہے کہ رسول اکرمؐ کی بعثت کا مقصد "لوگوں کو گمراہیوں سے نجات دینا اور ان کی بہترین تربیت ہے۔" سرور کائناتؐ کا بعثت کا مقصد اور ہدف ہے کہ تمام انسانوں کو منزل کمال اور سعادت سے ہمکنار کرنا۔ چونکہ انسان ہی تمام مخلوقات میں اشرف ہے۔ لہٰذا سرکار دوعالمؐ کی امت کی اصلاح کے لیے یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کمال و جمال کی منزل طے کرے اور صراط مستقیم پر گامزن رہے۔
خدا نے انسان کے لیے نمونہ اور اُسوہ بھیجا ہے۔ انسانوں کے لیے سید البشر میں نمونہ موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے بتایا کہ سید المرسلین یکتا اور بہترین مجسم نمونۂ عمل ہیں۔ اب انسان کو چاہیے کہ خاتم النبیین کے اعمال، اقوال، ان کے معاشرت، کردار، رفتار و گفتار کو دیکھے اور اسے دیکھ کر خود عمل کرتا رہے۔ لہذا انسان اپنے ہر کام میں اللہ سبحان و تعالٰی کے رسول اعظم کی پیروی کرے، یہ عمل دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے ضامن ہے۔
تمام امت مسلمہ پر فرض ہے کہ اپنے کردار سازی کے لیے حضرت محمد مصطفٰیؐ کی حیات طیبہ کا بغور مطالعہ کریں، آپؐ کی خصوصیات کو اپنائیں، اپنے گھر، اپنے خاندان، دوست، معاشرہ، شہر اور وطن کے افراد کے لیے نمونہ بن کر دکھائیں۔ آج اپنے وطن اور بیرون ممالک میں مسلمانوں کو دوسرے اقوام کے افراد کی نظروں میں حقیر سمجھا جا رہا ہے۔ وجوہات کے تجزیے ضروری ہے۔ آج یہ اہم خوبی کا فقدان مسلمانوں میں شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے جبکہ امانت داری اور صداقت اسلام اور مسلمانوں کا علامتی نشان امتیاز ہے۔ آپ کی زندگی سے نایاب گوہر عشاق میں تلاش کریں گے تو مایوسی نصیب ہوگی۔
اگر امت مسلمہ اسلام کے پرچم کو دنیا میں لہرانا چاہتی ہے تو ہر فرد بشر کو حبیبؐ ربانی کے اخلاق و سیرت پر عمل پیراں، قول و فعل، عہد و پیمان کا مکمل پابند ہونا ہوگا۔ اخلاق کے اہم نکتے ہیں: امانت داری، صداقت، سادگی، صبر و شکر وغیرہ۔ سیرت میں درس، عبرت، عدالت، تبلیغی، عملی، حقوق العباد، مساوات مستورات۔
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ، آئمہ اطہار علیہم السلام، اسلام، قرآن اور محبانٍ محمد و آل محمد کے دشمن 570 عیسوی یعنی ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے بعد سے ہی زبردست دشمن بنے بیٹھے ہیں اور نقصان پہنچانے کے لیے ہر وقت آمادہ ہیں۔ چند نام لکھنا ضروری ہے تاکہ موجودہ نسل اور آئندہ نسلوں کو دشمن شناسی و شناخت کر سکیں ان میں اہم نام ہیں: سفیان، معاویہ، یزید، آج کے دور کا شیطان بزرگ 'امریکہ'، اسرائیل، یہودی اور سعودی شیخ لیکن یہ ظالمین کبھی کامیاب و کامران نہیں ہو سکے۔
محمد مصطفٰیؐ کی پوری دنیا ہی دشمن تھی، لیکن اس میں خاص طور پر پہلا دشمن ارد گرد کے قبائل تھے، دوسرے نمبر پر مکہ مکرمہ میں موجود مشرکین تھے، جبکہ مکہ کو مرکزیت حاصل تھی۔ تیسرا سب سے بڑا دشمن یہودی تھے۔ چوتھے دشمن، منافقین تھے اور پانچواں دشمن وہ تھا، جو ہر مسلمان اور مومن کے باطن میں موجود تھا اور یہی دشمن سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
راقم الحروف یہ محسوس کرتا ہے کہ دشمنوں کی پہچان کرائی جائے۔ ایسا لکھنا لازم ہے کیونکہ دشمن شناسی کامیابی کی خاص علامت ہے۔
570 عیسوی سے لیکر 2024 عیسوی تک امت محمدی کے سب سے بڑے دشمن اپنے مکر و فریب سے یہودی ہی قرار پائے۔ یہ ایسے ناقابل اطمینان لوگ تھے جنہوں نے وقتی طور پر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ میں ہی مل جل کر رہنے کا عہد کیا تھا مگر پھر بھی ایزا ٕ رسائی، خلل اندازی اور تخریب کاری سے باز نہیں آتے تھے۔ آج کے دور میں جو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے، قرآن کافی ہے ان کے لیے مفیدٍ ذکر ہے کہ سورۃ بقرہ کا ایک اہم حصہ اور بعض سورتیں یہودیوں کے ساتھ آپ کی ثقافتی جنگ پر مشتمل ہیں۔ یہودی بڑے آگاہ، ہوشیار اور شاطر تھے، کمزور عقیدے کے لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کر دیتے تھے، شازشیں کرتے، لوگوں کو نااُمید اور مایوس کرتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیتے تھے۔ یہ یہودی رسول اکرمؐ کے ایسے دشمن تھے جن کی دشمنی منظم اور منصوبہ بندی پر استوار تھی۔ آج بھی امت محمدی کے خلاف شازشیں کر رہے ہیں- یہ انسان، اسلام، مسلمان، ایمان، اخلاق، اتحاد، اتفاق، امن و استحکام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ فلسطین میں پچاس ہزار بچے اور خواتین کو شہید کر چکے ہیں۔ ہزاروں مدرسے، اسکول، کالجز، یونیورسٹیز، کتب خانہ، مساجد اور ہسپتال تباہ کر چکے ہیں۔ نام نہاد مسلم اور عرب ممالک ان کے ہم نوالہ ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ یہ کہنے والے کہ ہمارے لیے اللہ اور قرآن کافی ہے، اللہ پاک ان کی اور سب کی ہدایت فرمائے۔
پیغمبرِ اکرمؐ ہمیشہ تدبر اور غور و فکر کے بعد کوئی کام انجام دیتے تھے اور ہر کام کو بر وقت کیا کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپؐ نے کبھی بھی معنویت و ہدایت اور تعلیم و تربیت کی نور افشانی میں ذرہ برابر تامل سے کام نہیں لیا۔ حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ میں عجیب برکت پائی جاتی ہے! ایسی با برکت زندگی جس نے پوری تاریخ کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا اور پوری تاریخ پر اثر انداز رہی۔ آپؐ نے اپنے قول سے زیادہ اپنے عمل، سیرت اور کردار کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا ہے۔
امت مسلمہ کم از کم حبیب کبریا کے حُسن کلام ہی کا اتباع کریں۔ سورۃ بقرہ کی 83 ویں آیت مبارکہ دیکھیں 'وقولو للناس حسنا' اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔ سورۃ بقرہ کی 263 ویں آیت مبارکہ پر غور کریں 'نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور در گزر کرنا' اس سلسلے میں سورۃ النحل کی 125 ویں آیت بھی قابل ذکر ہے 'اے رسول معظم! آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو'۔ جب آپ خاموش ہوتے تو پر وقار ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو چہرہ اقدس پُر نور اور بارونق ہوتا۔ (امام حاکم، طبرانی اور ابن حبان سے روایت )
کس سے توحید کبریا ہو رقم
سر قلم ہیں یہاں قلم کے قلم
اس شخص پر روشنی کس طرح ڈالی جائے جو خود شمس الضحیٰ ہو 'نہ تیرا جمال ہوتا نا یہ کائنات ہوتی۔' جسکے ڈیوڑھی پر آفتاب بھی سجدہ ریز ہو، ماہتاب اس کی اشاروں پر چلتا ہو۔ ہماری گنہگار زبان، محدود فکر، سمندر میں قطرہ مانند علم، ہمارا ناقص قلم، کمزور دست، نا مکمل عقل، اس عقل کامل کی اخلاق و سیرت کی مدح و ثناء کس طرح کرے جس کی تعریف خدا وند عالم کرتا ہے۔ جس کی مدح خوانی قرآن کریم کچھ اس انداز میں کرتا ہوا نظر آتا ہے: احمد، حامد، محمود، مدثر، مزمل، طٰہٰ، یٰسین، بشیر، نظیر، نور العُلا، صدرا الدقہ، مصباح الھدیٰ، کلیم اللہ، حبیب اللہ، کاشف الکرب، امین اور صادق۔
سورۃ النساء کی 80 ویں آیت میں ارشاد باری ہے "جس نے ہادی نیک کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی۔" سورۃ انفال، آیت 24 میں تنبیہ کی گئی ہے "جب تمہیں اللہ و رسول ؐ حیات کی طرف دعوت دیں تو تمھارا یہ وظیفہ ہے کہ ان کی آواز پر لبیک کہو، چاہے کتنے سنگ ہی سہی خدا اور رسولؐ کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا ورنہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
اس امینؐ و صادقؐ کی شان میں کیا کہا جائے جس کے اخلاق و سیرت نے دنیائے کفر کو ریزہ ریزہ کردیا، فارسی آتشکدہ گل ہو گیا اور قیصر و کسریٰ کے کنگرے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے۔ عظمت اتنی زیادہ کہ خدا نے اپنا مہمان بنایا۔ آپؐ کی شان و عظمت یہ ہے کہ جبرئیل امین خدا کا سلام لیکر نازل ہوتے ہیں اور انکساری اس حد تک کہ مکہ کے بچوں کو سلام کرنے کا موقع نہیں دیتے، خود پہلے سلام کرتے۔
ذوالجلال و لا کرام و جل جلالہ نے مکرمؐ، طیب و طاہرؐ کو عالم بشریت کی رہنمائی کے لیے مامور فرمایا جن کی رسالت کے جلووں نے ہمارے دل کے فانوس میں معرفت کی شمع چمکائی۔ اُجالے میں ہم نے اپنے آپ کو بندہ اور اس کو معبود پہچانا۔ وہ نعمت عظمٰی کہ جس کے صدقے میں نور ایماں سے نہال اور دولت سے بے زوال کہ جس کی بدولت متاع دین و اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ وہ کون؟ بے یاروں کا یار، بے مددگاروں کا مدگار، بےوسیلوں کا وسیلہ، بے بھروسوں کا بھروسہ، بے بسوں کا بس، بے کسوں کا کس، ٹوٹے دلوں کا سہارا، اللہ تعالٰی کا پیارا، دونوں جہاں کا مختار، مدینہ منورہ کا تاجدار، جس کے اشاروں پر شمس و قمر پھریں، سب حور و ملک، جن و بشر انہیؐں کا دم بھرتے ہیں۔ چرند و پرند، شجر و حجران کو سجدہ کرتے ہیں۔ شفاعت کا تاج انہیںؐ کے سر سجا، آپؐ ہی عرش و فرش کے ظاہری و باطنی خزانوں کے بانٹنے والے ہیں۔
سخی کچھ ہو نواسوں کا صدقہ
صدا دے رہے ہیں صدا دینے والے
طلب تو کرو دین و دنیا کی دولت
ہیں رب کو حبیبؐ خدا دینے والے
آپؐ کی سادگی، عاجزی، سچائی اور ایمانداری نے آپؐ کو بلا لحاظ ذات پات، نسل، قبیلہ، رنگ، روپ، زبان، سرحد اور مذہب ہر دور کے لئے ایک رول ماڈل بنا دیا اور دنیا 570 عیسوی سے ہمارے دور میں آپؐ کا مشاہدہ کر رہی ہے اور زمانہ آپ ﷺ کے وارث، مہدی عج اللہ تعالٰی الفرجہ الشریف کے ظہور تک کرتی رہے گی۔
ماشاءاللہ! عُشاق حبیبؐ اللہ واقف ہو گئے کہ محمودؐ کے بعثت کا مقصد اور ہدف کیا ہے؟ اخلاق و سیرت کیسی ہے؟ اللہ تعالٰی کا پیغام حقیقت میں یہی اتباع اللہ اور محمد مصطفٰیؐ ہے:
کی محمدؐ سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
کل جہاں سے لیکر اپنا ملک، ہندوستان کی سرزمین تک آپؐ کے پیکر بشریت کے اخلاق، سیرت، سادگی اور عاجزی سے مرغوب ہو کر غیر مسلم سماجی اور قومی زندگی میں کامیاب ہو رہے ہیں اور ہم ہیں کہ یوم ولادت کی تاریخ، نالعین، مُو، روحانی یا جسمانی معراج، خد و خال اور دیگر معمولی شئے کو مرکز بحث و نجات بنائے ہوئے ہیں۔
المختصر، عاشقان رسول اکرمؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم تاجدار انبیاءؐ کی سیرت پر چلیں، خلوت و جلوت میں آپؐ کی سُنتوں کو زندہ کریں اور آپؐ جو مشن لے کر آئے اس کا حصہ بنیں اور اس کو آگے بڑھائیں۔ ربیع الاول کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ آپؐ کی سیرت پاک سے روشنی حاصل کریں اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کریں! علم سیرت محض ایک شخصیت کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تمدن، ایک قوم، ایک ملت اور ایک الٰہی پیغام کے آغاز اور ارتقاء کی انتہائی اہم داستان ہے۔ لہذا دنیا کو منور کریں اور آخرت میں اعلٰی مقام حاصل کریں!